گزشتہ روز اسرائیلی پارلیمنٹ میں فلسطینی مساجد میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان
دینے پر پابندی کے متنازع قانون پر ابتدائی رائے شماری کی گئی ، مگر اس
موقع پر عرب برادری کے نمائندہ ارکان کنیسٹ نے اس قانون کی مخالفت کرتے
ہوئے اس کی کاپیاں پھاڑ کر پھینک دیں۔خیال رہے کہ اسرائیلی کنیسٹ میں پیش
کردہ قانون کے دو الگ الگ حصے ہیں۔ ایک حصے میں فلسطینی مساجد میں لاؤڈ
اسپیکر پر اذان دینے اور دوسرے میں یہودی معابد میں لاؤڈ اسپیکروں پر جرس
اور سیٹیاں بجانے کی ممانعت کی سفارش کی گئی ہے۔
کنیسٹ میں یہ متنازع قانون گزشتہ کئی ماہ سے منظور کرانے کی کوششیں کی جاتی
رہی ہیں۔ ترمیم کے بعد یہ قانون
ایک بار پھر پارلیمنٹ میں رائے شماری کے
لیے پیش کیا گیا۔ ابتدائی رائے شماری میں منظور کے بعد اب اس کی حتمی
منظوری کے لیے دوسری اور تیسری رائے شماری کےعمل سے گذارا جائے گا۔
نئے ترمیمی بل کے تحت رات گیارہ سے صبح سات بجے تک مساجد میں لاؤڈ اسپیکر
پر اذان دینے پر پابندی ہوگی۔ اس طرح نماز فجر کی اذان پر براہ راست پابندی
لگا دی گئی ہے۔صہیونی ریاست کی طرف سے اذان پر پابندی کے قانون پرعمل
درآمد کے لیے بھاری جرمانے اور قید کی سزائیں بھی مقرر کی ہیں۔ قانون کے
تحت خلاف ورزی کرنے والی مساجد کی انتظامیہ ، امام یا موذن کو 1200 امریکی
ڈالر کے مساوی یعنی پانچ ہزار اسرائیلی شکل جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔